تفسير ابن كثير



سورۃ آل عمران

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ[137] هَذَا بَيَانٌ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِينَ[138] وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ[139] إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ[140] وَلِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ[141] أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ[142] وَلَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ فَقَدْ رَأَيْتُمُوهُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ[143]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بلاشبہ تم سے پہلے بہت سے طریقے گزر چکے، سو زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا؟ [137] یہ لوگوں کے لیے ایک وضاحت ہے اور بچنے والوں کے لیے سراسر ہدایت اور نصیحت ہے۔ [138] اور نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب ہو، اگر تم مومن ہو۔ [139] اگر تمھیں کوئی زخم پہنچے تو یقینا ان لوگوں کو بھی اس جیسا زخم پہنچا ہے اور یہ تو دن ہیں، ہم انھیں لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں، اور تاکہ اللہ ان لوگوں کو جان لے جو ایمان لائے اور تم میں سے بعض کو شہید بنائے اور اللہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔ [140] اور تاکہ اللہ ان لوگوں کو خالص کر دے جو ایمان لائے اور کافروں کو مٹا دے۔ [141] یا تم نے گمان کر لیا کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تک اللہ نے ان لوگوں کو نہیں جانا جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا اور تاکہ وہ صبر کرنے والوں کو جان لے۔ [142] اور بے شک تم تو موت کی تمنا کیا کرتے تھے، اس سے پہلے کہ اسے ملو، تو بلاشبہ تم نے اسے اس حال میں دیکھ لیا کہ تم (آنکھوں سے) دیکھ رہے تھے۔ [143]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] تم سے پہلے بھی ایسے واقعات گزر چکے ہیں، سو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ (آسمانی تعلیم کے) جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا؟ [137] عام لوگوں کے لئے تو یہ (قرآن) بیان ہے اور پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ونصیحت ہے [138] تم نہ سستی کرو اور غمگین ہو، تم ہی غالب رہو گے، اگر تم ایماندار ہو [139] اگر تم زخمی ہوئے ہو تو تمہارے مخالف لوگ بھی تو ایسے ہی زخمی ہو چکے ہیں، ہم ان دنوں کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔ (شکست احد) اس لئے تھی کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ﻇاہر کردے اور تم میں سے بعض کو شہادت کا درجہ عطا فرمائے، اللہ تعالیٰ ﻇالموں سے محبت نہیں کرتا [140] (یہ وجہ بھی تھی) کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو بالکل الگ کر دے اور کافروں کو مٹا دے [141] کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے، حاﻻنکہ اب تک اللہ تعالیٰ نے یہ ﻇاہر نہیں کیا کہ تم سے جہاد کرنے والے کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں؟ [142] جنگ سے پہلے تو تم شہادت کی آرزو میں تھے اب اسے اپنی آنکھوں سے اپنے سامنے دیکھ لیا [143]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] تم لوگوں سے پہلے بھی بہت سے واقعات گزر چکے ہیں تو تم زمین کی سیر کرکے دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا [137] یہ (قرآن) لوگوں کے لیے بیان صریح اور اہلِ تقویٰ کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے [138] اور (دیکھو) بے دل نہ ہونا اور نہ کسی طرح کا غم کرنا اگر تم مومن (صادق) ہو تو تم ہی غالب رہو گے [139] اگر تمہیں زخم (شکست) لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی ایسا زخم لگ چکا ہے اور یہ دن ہیں کہ ہم ان کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں اور اس سے یہ بھی مقصود تھا کہ خدا ایمان والوں کو متمیز کر دے اور تم میں سے گواہ بنائے اور خدا بےانصافوں کو پسند نہیں کرتا [140] اور یہ بھی مقصود تھا کہ خدا ایمان والوں کو خالص (مومن) بنا دے اور کافروں کو نابود کر دے [141] کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ (بےآزمائش) بہشت میں جا داخل ہو گے حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو تو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں اور (یہ بھی مقصود ہے) کہ وہ ثابت قدم رہنے والوں کو معلوم کرے [142] اور تم موت (شہادت) کے آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے سو تم نے اس کو آنکھوں سے دیکھ لیا [143]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 137، 138، 139، 140، 141، 142، 143،

شہادت اور بشارت ٭٭

چونکہ احد والے دن ستر (‏‏‏‏70)‏‏‏‏‏‏‏‏ مسلمان صحابی رضی اللہ عنہم شہید ہوئے تھے تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ڈھارس دیتا ہے کہ اس سے پہلے بھی دیندار لوگ مال و جان کا نقصان اٹھاتے رہے لیکن بالآخر غلبہ انہی کا ہوا تم اگلے واقعات پر ایک نگاہ ڈال لو تو یہ راز تم پر کھل جائے گا۔ اس قرآن میں لوگوں کیلئے اگلی امتوں کا بیان بھی ہے اور یہ ہدایت و وعظ بھی ہے۔ یعنی تمہارے دلوں کی ہدایت اور تمہیں برائی بھلائی سے آگاہ کرنے والا یہی قرآن ہے،

مسلمانوں کو یہ واقعات یاد دلا کر پھر مزید تسلی کے طور پر فرمایا کہ تم اس جنگ کے نتائج دیکھ کر بد دل نہ ہو جانا نہ مغموم بن کر بیٹھ رہنا فتح و نصرت غلبہ اور بلند و بالا مقام بالآخر مومنو تمہارے لیے ہی ہے۔
1299

اگر تمہیں زخم لگے ہیں تمہارے آدمی شہید ہوئے تو اس سے پہلے تمہارے دشمن بھی تو قتل ہو چکے ہیں وہ بھی تو زخم خوردہ ہیں یہ تو چڑھتی ڈھلتی چھاؤں ہے ہاں بھلا وہ ہے جو انجام کار غالب رہے، اور یہ ہم نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے۔ یہ بعض مرتبہ شکست بالخصوص اس جنگ احد کی، اس لیے تھی کہ ہم صابروں کا اور غیر صابروں کا امتحان کر لیں اور جو مدت سے شہادت کی آرزو رکھتے تھے انہیں کامیاب بنائیں کہ وہ اپنا جان و مال ہماری راہ میں خرچ کریں،

اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ یہ جملہ معترضہ بیان کر کے فرمایا یہ اس لیے بھی کہ ایمان والوں کے گناہ اگر ہوں تو دور ہو جائیں اور ان کے درجات بڑھیں اور اس میں کافروں کا مٹانا بھی ہے کیونکہ وہ غالب ہو کر اترائیں گے سرکشی اور تکبر میں اور بڑھیں گے اور یہی ان کی ہلاکت اور بربادی کا سبب بنے گا اور پھر مر کھپ جائیں گے ان سختیوں اور زلزلوں اور ان آزمائشوں کے بغیر کوئی جنت میں نہیں جا سکتا جیسے سورۃ البقرہ میں ہے کہ کیا تم جانتے ہو کہ تم سے پہلے لوگوں کی جیسی آزمائش ہوئی ایسی تمہاری نہ ہو اور تم جنت میں چلے جاؤ یہ نہیں ہو گا۔

اور جگہ ہے آیت «الم أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّـهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ» [29-العنكبوت:2-1] ‏‏‏‏ کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ہم صرف ان کے اس قول پر کہ ہم ایمان لائے انہیں چھوڑ دیں گے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی؟ یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ جب تک صبر کرنے والے معلوم نہ ہو جائیں یعنی دنیا میں ہی ظہور میں نہ آ جائیں تب تک جنت نہیں مل سکتی۔
1300

پھر فرمایا کہ تم اس سے پہلے تو ایسے موقعہ کی آرزو میں تھے کہ تم اپنا صبر، اپنی بہادری اور مضبوطی اور استقامت اللہ تعالیٰ کو دکھاؤ اللہ کی راہ میں شہادت پاؤ، لو اب ہم نے تمہیں یہ موقعہ دیا تم بھی اپنی ثابت قدمی اور اولوالعزمی دکھاؤ، حدیث شریف میں ہے دشمن کی ملاقات کی آرزو نہ کرو اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو اور جب میدان پڑ جائے پھر لوہے کی لاٹ کی طرح جم جاؤ اور صبر کے ساتھ ثابت قدم رہو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے [صحیح بخاری:2966] ‏‏‏‏

پھر فرمایا کہ تم نے اپنی آنکھوں سے اس منظر کو دیکھ لیا کہ نیزے تنے ہوئے ہیں تلواریں کھچ رہی ہیں بھالے اچھل رہے ہیں تیر برس رہے ہیں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے اور ادھر ادھر لاشیں گر رہی ہیں۔
1301



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.